Waseem khan

Add To collaction

18-May-2022 لیکھنی کی کہانی -

تقدیر پہ شاکر رہ کر بھی یہ کون کہے تدبیر نہ کر 
وا باب اجابت ہو کہ نہ ہو زنجیر ہلا تاخیر نہ کر 

غم بڑھنے دے اے دل اور ذرا جانچ آہ کی بے تاثیر نہ کر 
ہے خواب ادھورا آپ ابھی بے سمجھے غلط تعبیر نہ کر 

جب ظلم کا بدلہ ظلم ہوا مظلوم کا حق کچھ بھی نہ رہا 
دے درد ہی میں لذت یا رب نالے کو عطا تاثیر نہ کر 

ہو لاکھ کمان کڑی قاتل کچھ جذب نشانے میں بھی ہے 
بازو کے بل پہ نظر کر کے اندازۂ زخم تیر نہ کر 

اب تک جو نگاہیں سیدھی ہیں ممکن ہے کل یہ پلٹ جائیں 
جو کرنا ہو کرے ایسے میں کس سوچ میں ہے تاخیر نہ کر 

پیمان محبت ختم ہوا اب ذکر سے اس کے فائدہ کیا 
منہ بکھری کڑیوں کے نہ ملا تیار نئی زنجیر نہ کر 

الفت کے عہد محکم میں بودے کاغذ کی ضمانت کیا 
یہ دل سے دل کی باتیں ہیں رکھ یاد فقط تحریر نہ کر 

ہر دل ہے حیات کا سرمایہ ہر دل میں جوش محبت کا 
تو آرزوؔ اور کہے گا کیا بس رہنے بھی دے تقریر نہ کر 

آرزو لکھنوی

   0
0 Comments